منصور عالم قاسمی
ایڈیٹر اعزازی بصیرت میڈیا گروپ
ریاض سعودی عرب
’’ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب ،،یہ خوبصورت جملہ بچپن سے سنتا آرہاہوں ؛جب تک ہندوستانی سیاست و معاشرت کی پیچ وخم کا شعور نہیں تھا؛جب تک محبت و نفرت ،تشدد و ترحم سے عقل و خرد نا بلد تھی؛یہ جملہ بہت ہی حسین و دلکش لگتا تھا ،لیکن جب فکر و فراست کا جنم ہوا اور حالات کے نشیب و فراز کو نگاہوں نےدیکھا تو یقین ہو گیا’’ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب ،،بس ایک جملہ ہےجو سراب کی مانند ہے جس کا حقیقت سے شاید کوئی واسطہ نہیں ،یہ لکھنے،بولنے اور سننے تک ہی محدود ہے ۔ممکن ہے ماضی میں گنگا جمنی تہذیب کی دیواریں بہت مستحکم رہی ہوں ،ہمارا اور تمہاراکا منحوس سایہ محلات میں کجا صحرائوں اور گھنے جنگلات میں بھی نہ رہا ہو اور یہی سچائی بھی ہے، اسی لئے مؤرخین رقمطراز ہیں کہ 1809ءسے قبل مذہب کی بنیاد پر کبھی بھی ہندوستان میں فساد بپا نہیں ہوا ،اور نہ کسی کا مرڈر ہوا لیکن ۱۸۰۹ءمیں بنارس میں عیدگاہ اور ہنومان ٹیلے کی زمین کو لے کر تنازع ہوا اور پہلی بار ہندوستان نےمذہب کے نام پر فساد کا خوفناک چہرہ دیکھا ۔پھر جو اقلیتی طبقات خصوصاً مسلمانو ں کےخلاف لامتناہی فسادات اور قتل کا سلسلہ جاری ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔کانپور،بھاگلپور،مرادآباد،جمشیدپور،ہاشم پورہ،میرٹھ، مظفرنگر کہاں تک شمار کرائوں؟اب تک کم و بیش4000 فسادات ہوئے ،ان شہروں کے در ودیوار پر آج بھی خون کے دھبے لگے ہوئے ہیں ، معصوموں کی چیخیں آج بھی سماعت سے ٹکراتی ہیں ،بیوائوں کی آہ و فغاں آج بھی گونجتی ہیں ۔
ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے ،یہاں کی مذہبی ،ثقافتی تکثریت کی خصوصی شناخت رہی ہے ،تاہم سال گزشتہ جب سے آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی نے مسند اقتدار واضح اکثریت سے حاصل کی ہے ،فرقہ پرست طاقتیں ،سماج دشمن عناصرہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا رہے ہیں ،کبھی لو جہاد ،کبھی گھر واپسی ،کبھی گئوکشی اور اب بیف کا نعرہ دے کر یہاں کے امن و شانتی کو تہس نہس کر رہے ہیں ،اس کا تاز ہ ترین نمونہ پچھلے دنوں دادری کے بساہڑہ گائوں کے اخلاق کو ان بیوی کے سامنے،ان کی بوڑھی ماں اورجوان بیٹی کی آنکھوں کے سامنے بے دردی کے ساتھ گھر سے گھسیٹ کر لے جانا اور ہلاک کر دینا ہے ۔یہ سفاک اورجنونی بھیڑیئے نہ تو بہار و بنگال سے آئے تھےاور نہ ہی راجستھان و گجرات سے ،بلکہ یہ وہی افراد تھے جن کے ساتھ اخلاق کی صبح وشام نشست و برخاست تھی، جن کے ساتھ ہمکلامی و ہمنوائی تھی لیکن افسوس ایک بزرگ شیطان پجاری نے مندر کے لائوڈسپیکر پر اخلاق کے یہا ں گائے کےگوشت ہونے کا اعلان کر دیااور دیکھتے ہی دیکھتے سارےنگوٹیا یار ،ہمجولی اور مصاحب خونخوار درندے بن کر اخلاق اور اس کے بیٹے پر ٹوٹ پڑے اور یوں اخلاق کی شمع زندگی گل کردی گئی ۔نہ کسی کو بھارت ماتا کی گنگا جمنی تہذیب یاد رہی اورنہ باپو کےاہنسا کا درس۔ ہاںیہ ضرور ہوا کہ مذہب اورگائے ماتا کے نام پرغلیظ سیاست شروع ہو گئی۔بی جے پی کا زیڈ پلس ایم ایل اے اور مظفرنگر فساد کا کلیدی مجرم سنگیت سوم دادری آکر ماحول کو مزید بگاڑنے کی کوشش کی،حالانکہ پکے گائے بھگتی کا دعوی ٰ کرنے والا یہ عیار خود ہی سلاٹر ہائوس چلاتا تھا اور بیف ایکسپورٹ کرتا تھا ،اس نے یومیہ5000 ہزار جانور کاٹنے کا لائسنس مانگا تھا،بیف سے اس نے کروڑوں روپئے کمائے۔سادھوی پراچی نے کہا :بیف کھانےوالے کا وہی حال ہوگا جو اخلاق کا ہوا ،،جبکہ رگ وید کال سے لےکر ماضی قریب تک ہندو بیف کھاتے رہے ہیں ، انگریزی اخبار ’’اکنامکس ٹائمز،،میں 16سال سےمستقل کالم نگاردلیپ دیوگھرنے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ’’بالا صاحب دیورس اورموہن بھاگوت، سنگھ کے سربراہ بننے
سے قبل بیف کھاتے تھے ،،اس حقیقت کو بر سرعام کرنا تھا کہ کالم نویس کوآر ایس ایس کے دبائو میں کالم لکھنے سے روک دیا گیا ،مرکزی وزیر مہیش شرما کے احمقانہ بیان پر افسوس ہو رہا ہے کہ :یہ قتل نہیں حادثہ ہے ،،مہاراج کو قتل اور حادثہ کا فرق بھی پتہ نہیں ۔معمولی معمولی واقعات پر بولنے اور ٹیوٹ کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کی زبان اس دلدوز واقعہ پر نہیں کھلی توصدر جمہوریہ کو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب یاد دلانی پڑی ،انہوں نے کہا کہ : ہندوستان تہذیب تکثریت،رواداری اور اور وحدت میں کثرت کی بنیاد کو یقینی طور پر اپنے دماغ میں برقرار رکھنا چاہئے،اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے ،،اس کے بعد جب وزیر اعظم کی زبان کھلی بھی تو نہ اخلاق کاذکر ،نہ دادری کا نام ،بس روایتی الفاظ بول گئے کہ ’’ہندو اور مسلمانوں کو متحد ہو کر غریبی سے لڑنی چاہئے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہئے اور ملک کی ترقی کے لئےکام کر نا چاہئے ،،۔
صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کا بیان قابل احترام ہے لیکن سرکشوں پر لگام لگانے کے لئے یہ ناکافی ہے،یہی وجہ ہے کہ مین پوری میںبھی گئوکشی کی افواہ پھیلا کر شرپسندوں نے دو مسلم نوجوانوں کو بے تحاشہ مارا پیٹا،چنانچہ گائے کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پایاگیا کہ طبعی موت ہوئی تھی ، جیساکہ اخلاق کے گھر سے بر آمد گوشت کو فورنسک لیب نے مٹن ہونےکی تصدیق کر دی ہے۔بنگلور میں بھی محمد ابراہیم نامی ایک مسلم تاجر کو گئو کشی کی افواہ پھیلا کر بجرنگ دل کے اراکین نے بری طرح زد وکوب کیااور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔گائے اور بیف کے نام سے قتل ،تشدد اور فساد کے باوجود بی جے پی نوازمسلم چہرے جو خیر خواہان امت مسلم کہلاتے ہیں دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں ،نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی کوئی بیان۔مختار عباس نقوی ،شاہنواز حسین ،اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہیبت اللہ ،’’علامہ،،ظفر سریش والا اور عظیم دانشور و صحافی ایم جے اکبر صاحب۔وقت بے وقت بی جے پی کی ترجمانی کرنے والےیہ قائدین آج بے بس اورمظلوم مسلمانوںکی ترجمانی سے گھبرا رہے ہیں ؟ان سے تو وہ غیر مسلم شعراء ،ادباء اورمصنفین اچھے ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف ،اخلاق ، دابھولکر،پانسری اور گلبرگی کے قتل کے احتجاج میںساہتیہ اور دیگر ادبی یوارڈ واپس کر کے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سبق سرکار اور سرکشوں کو یاد دلایا اور ایک آس جگا ئی کہ آج بھی اہل محبت بیدار ہیں ، رواداری اور تہذیب ہند کے علم بردار زندہ ہیں ۔ایسےبے باک افراد کی عظمتوںہم کو سلام کرتے ہیں -
پچھلے دنوں ایک رپورٹ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ دادری کے اسی گائوںمیں جہاں چند ایام قبل گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں متعصب ،متشدد اورفرقہ پرست ہندئووںنے اخلاق کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا آج اسی بساہڑہ گائوں کے امن پسند برادران وطن دو مسلم بہنوں کی شادی کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ،یقیناً ایکتا،یکجہتی اورہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی یہ اچھی مثال ہے لیکن افسوس بھی ہے کہ آخر یہ امن پسند لوگ اس وقت کہاں تھے ؟جب ان کے اپنے لڑکے اور خویش و اقارب بے دردی سے اخلاق اور اس کے بیٹے پر تلواریں ،کلہاڑیاں،بھالے،لاٹھیاں اورڈنڈے برسا رہے تھے ؟کوئی روکنے کے لئے کیوں آگے نہیں بڑھا ؟حق تو یہ ہے کہ ہندوستان کی اکثریت امن و سکون چاہتی ہے ،بلا تفریق مذہب میل و محبت سے جینا چاہتی ہے ،لیکن چند فیصد شرپسندوں نے ،اور ان کے زہریلے سیاسی آقائوں نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ،اللہ کرے ان کے منصوبے ناکام ہوں اور آپس میں ہمیشہ رواداری اور اخوت ومحبت کا جذبہ قائم رہے ۔
mansoorqasmi8@gmail.com
(بصیرت فیچرس)